بُرے ماحول سے بچو کہ وہ بُری صحبت کا باعث ہے جو موجب ہلاکت ہے
بُرے ماحول کواپنانے والے افراد اپنی عزت و وقار اور حیثیت کو کھودیتے ہیں، اس کی مثال یوں سمجھیں کہ وہ مکھی کی دوسری قسم کی روش کو اپناتے ہیں یعنی چمنستان موجود ہے اطراف سرسبز وشاداب اور گل و گلزار بھی ہے مگر وہ مکھی غلاظت ہی کا انتخاب کرتی ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ وہ تمام خوبصورت جسم کو چھوڑ کر صرف اسی مقام کا انتخاب کرتی ہے جو زخمی ہوتا ہے جس میں خون و پیپ بھر اہوتاہے اسی لئے لوگ اس سے متنفر ہوتے ہیں اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ غلیظ ماحول سے تعلق رکھنے والی مکھیاں وبا و بیماری ہی کا ذریعہ بنتی ہیں معلوم ہو اکہ غلیظ اور گھناؤنے ماحول سے وابستہ ہونے والے افراد اپنے وقار ہی کو مجروح نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی عزت و وقار کے بھی درپے ہوتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم بُرے ماحول اور بری صحبت سے اجتناب کریں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیۡکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَیُسْتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوۡا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہۤ ۫اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیۡنَ وَالْکٰفِرِیۡنَ فِیۡ جَہنَّمَ جَمِیۡعَاۨ ﴿۱۴۰﴾ۙ
ترجمہ کنزالایمان :اوربے شک اللہ تم پر کتاب میں اتارچکاکہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جاتااوران کی ہنسی بنائی جاتی ہے توان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ اوربات میں مشغو ل نہ ہوں ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو بے شک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کریگا۔(پ 5، النساء:140)
درس :آیت کریمہ میں ایسی تمام مجالس کی جن میں کتاب الہٰی کا انکار کیا جائے اور اس کی آیتوں کا مذاق اڑایا جائے، شرکت کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا جو شخص ایسی مجلسوں میں شرکت کرتا ہے وہ بھی برابر کا شریک ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۶۸﴾
ترجمہ کنزالایمان : اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جوہماری آیتوں میں پڑتے ہیں توان سے منہ پھیرلے جب تک اور بات میں پڑیں اورجوکہیں تجھے شیطان بھلا دے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(پ7، الانعام:68)
درس : صحبت کا اثر مسلّمہ ہے، انسان اپنے ہمنشین کی عادات ، اخلاق اور عقائدسے ضرور متاثّر ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان لوگوں کے پاس
بیٹھنے سے سختی سے منع فرمایا ہے جن کا رات دن کا مشغلہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور قرآن حکیم پر طعن وتشنیع کرنا ہے لہٰذا ایسے خطرناک اور بھیانک قسم کے قبیح و شنیع ناسور سے آلودہ مریضوں کی صحبت سے بچو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اس ناپاک مرض میں مبتلا ہوجاؤ ، سیدالکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:
اِیَّاکَ وَمَا یَسُوْءُ الاُذُنُ.
(المسند لامام احمد بن حنبل، حدیث ابی الغادیۃ، الحدیث:۱۶۷۰۱، ج۵، ص۶۰۵)
ترجمہ : بچ اس بات سے جو کان کو بُری لگے۔
رواہ احمد عن ابی الغادیۃ والطبرانی وابن سعد فی الطبقات والعسکری فی الامثال وابن مندۃ فی المعرفۃ والخطیب فی المؤتلف عن امام الغادیۃ وابو نعیم فی المعرفۃ عن خبیب بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہم وعبداللہ بن احمد فی الزوائد و المعرفتان عن العاص بن عمروالطفاوی مرسلا، انظرالفتاویٰ الرضویۃ المجلدالعاشر ص ۱۳
(الفتاوی الرضویۃ جدید،کتاب الحظروالاباحۃ،ج۲۴،ص۳۱۷)
اور بالخصوص دینی معاملات او ر عقائد کے متعلق تو بری صحبت سے اجتناب انتہائی ضروری ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمَرْءُ عَلیٰ دِیْنِ خَلِیْلِہِ فَلْیَنْظُرْ اَحَدُ کُمْ مَنْ یُّخَالِلُ.
(المسند لامام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرۃ، الحدیث:۸۴۲۵، ج۳، ص۲۳۳)
ترجمہ : آدمی اپنے دوست کے دین اور اس کے طور طریق پر ہوتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ وہ دیکھے کہ کس سے دوستی رکھتا ہے۔
حضرت محمد بن سیرین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں۔
اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْاعَمَّنْ تَاْخُذُوْنَ دِینَکُمْ.
(صحیح مسلم، مقدمۃ، باب بیان ان الاسنادمن الدین...الخ، ص۱۱)
ترجمہ : یعنی یہ علم دین ہے پس تم دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کرتے ہو۔
سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں کہ منکرانِ تقدیر کے پاس نہ بیٹھو نہ اُنہیں اپنے پاس بٹھاؤ نہ ان سے سلام کلام کی ابتدا کرو۔ (سنن ابی داود، کتاب السنۃ، باب فی ذراری المشرکین، الحدیث:۴۷۲۰،ج۴، ص۳۰۵)
پیارے اسلامی بھائیو! بُری صحبت سے دین و دنیا دونوں تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، بُرے ماحول میں انسان کی عادات اور اطوار بگڑ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی زیادہ ہونے لگتی ہے پیارے مصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پیاری پیاری سنتیں پامال ہونے لگتی ہیں آہستہ آہستہ انسان فسق و فجور کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ ایسے شخص کی بیداری شیطان کے لئے باعثِ فرحت و مسّرت ہوتی ہے،۔ لہذا شیطان لعین اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ ایسا شخص بیدار ہی رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ معاشرہ اور اس میں بسنے والے افراد اس کے فسق وفجور کا نشانہ بن سکیں چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں۔
لَا شَیْءَ اَشَدُّ عَلیٰ اِبْلِیسَ مِنْ نَّومِ الْعَاصِیْ فَاِذَا نَامَ الْعَاصِیْ یَقُوْلُ مَتٰی یَنْتَبِہُ وَیَقُوْمُ حَتّٰی یَعْصِیَ اللہَ.
(کشف المحجوب، باب فی نومہم فی السفروالحضر، ص۳۹۵)
ترجمہ :یعنی شیطان پر گناہ گار کے سونے سے بڑھ کر کوئی چیز سخت نہیں کہ جب گناہ گار سوتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ یہ کب اٹُھے گا جو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریگا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰی ؕ وَاللہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۰۷﴾لَاتَقُمْ فِیۡہِ اَبَدًا ؕ
ترجمہ کنزالایمان :اور وہ جنہوں نے مسجدبنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اورمسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظارمیں جوپہلے سے اللہ اور اس کے رسول کامخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے ہم نے توبھلائی چاہی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بے شک جھوٹے ہیں اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا ۔(پ11، التوبۃ:107،108)
درس: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا دشمن اُبو عامر جس کے اشارے پر منافقین نے مسجد قبا کے نزدیک مسجد ضرار بنائی ، اور مسجد ضرار بنانے کے سبب میں منافقین نے بہت سے حیلے بہانے کیے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ آپ اس مسجد میں نماز پڑھائیے حالانکہ منافقین کے مسجد ضرار بنانے کی غرض و غایت اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہ تھی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو آگاہ فرمایا کہ اے محبوب یہ منافقین ہیں ان کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز مت پڑھیے اگرچہ یہ لوگ اپنی جھوٹی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے ہزاروں قسمیں بھی اٹھائیں مگر وہ تمام بے سود ہیں کیونکہ یہ صاف جھوٹے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ گواہ ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! غور کیجئے وہ جگہ جس کا نام مسجد رکھا جائے مگر اس کی
تعمیر کا مقصد رضائے الٰہی نہ ہو بلکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہو مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی قوت کو پارہ پارہ کرنا جس کی غرض و غایت ہو تو حقیقت میں وہ مقام مسجد نہیں بلکہ مقامِ ضرار ہے اور اس قابِل ہے کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے۔
پس اچھی اور نیک صحبت حاصل کی جائے خواہ اندرونِ مسجد ہو یا بیرون مسجد اور بری صحبت سے پرہیز کیا جائے ، خواہ وہ بیرون مسجد ہو یا اندرون مسجد صرف مسجد کے نام سے دھوکہ نہ کھایا جائے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اور غیر کی پہچان کریں یہاں پر ہمارے لئے بہت غور وفکر کا مقام ہے کہ وہ جگہ جس کو مسجد کا نام دیا گیا مگر اس کی تعمیر و بنیاد فتنہ وفساد پر رکھی گئی تو مسلمانوں کو وہاں جانے سے روک دیا گیا بلکہ اس (مسجد ضرار) کو گرادینے کا حکم دیا گیا۔ تو پھر وہ جگہیں وہ مقامات جنہیں سینما ہال، ڈرامہ گاہوں جوا اور شراب کے بدبو دار اڈوں کا نام دیا گیا ہو جو مسلمانوں کی قوت ایمانی کو ختم کرنے والی ہوں اور بد اعمالی کے مہیب گڑھوں میں پھینکنے والی ہوں تو ایسی جگہوں پر مسلمانوں کا جانا انتہائی نادانی اور اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کی یقینا خلاف ورزی ہے۔
عجب تماشا یہ ہے کہ مذکورہ بالا جگہیں نقصان و خسران کا باعث ہیں اور ان کی طرف آمدورفت عذابِ الٰہی کی طرف پیش قدمی ہے مگر ان کے نام فردوس، جنت محل، گلستان، چمنستان اور کوہِ نور وغیرہ رکھے جاتے ہیں اور مسلمان اپنی اصلی جنت و فردوس کا راستہ چھوڑ کر ان نقلی جنت و فردوس میں اپنا مال خرچ کرکے جاتے ہیں پھر وہاں پہنچ کر مزید مال برباد کرتے ہیں۔
مسلمانو ! تمہاری غیرت کو کیا ہوگیا یہ فردوس و جنت، گلزار و گلستان تو صرف نام کے ہیں اور مسلمانوں کو ایسے جھوٹے اور بناوٹی ناموں سے کیا غرض ، یہ سب تو شیطانی
اڈے ہیں، جو رحمت خداوندی سے دورکرتے ہیں، لہذا اے مسلمانو! اگر بارگاہِ خداوندی سے انعام کے طلبگار ہو تو دھوکا و فریب کے منام سے بیدار ہو کر اچھے ماحول سے وابستہ ہوجاؤ اور اپنی ذات کو نیک اعمال سے گل گلزار کرلو تو اللہ تعالیٰ تمہیں وہ فردوس عطا کریگا جس کی لازوال نعمتیں ہما رے انتہائی تصور خوباں سے بھی اعلیٰ اور بالاتر ہیں۔
بُرے ماحول سے بچو کہ وہ بُری صحبت کا باعث ہے جو موجب ہلاکت ہے
Reviewed by WafaSoft
on
March 27, 2020
Rating:
No comments:
Thanks